Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

حالِ دل، ایڈیٹر کے قلم سے — جو میں نے دیکھا، سنا اور سوچا...ساس سسر کوگالی دے کر اکڑنے والے متوجہ ہوں!

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2024ء

دنیا میں سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا بنا ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اماں حوا سلام اللہ علیہابیوی ہی تھیں۔ میری روحانیت کی زندگی کا سفر 1984ء سے شروع ہوا‘ طالب علم کی حیثیت سے اور وہ طالب علمی چالیس سال 2024ء میں ابھی تک چل رہی ہے‘ آج بھی میں طالب علم ہوں۔ انسان موت تک طالب علم اور موت تک کا یہ سفر کرتا بھی رہتا ہے اور سیکھتا بھی رہتا ہے۔

 میاں بیوی میں جھگڑے کی بنیاد!

میرے پاس سارا دن الجھتے‘ دکھی اور پریشان مسائل میںمبتلا لوگ آتے ہیں۔ سکھی کون اور کیا کرنے آئے گا؟مسلسل میرے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں بہت بڑی جھگڑے کی بنیادیہ ہے کہ جب شوہر بیوی کے سامنے اس کے خاندان‘ اس کے بھائی‘ اس کے ماموں‘ چچا‘ ماں‘ والد‘ بہنیں یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی توہین وتذلیل یا اعتراض کرتا ہے تو یہ اعتراض بیوی کو کھا جاتا ہے۔ اس کے خاندان میں اچھے ہوں یا بُرے‘ ولی ہوں یا چور‘ اس کے لیے سارے نیک اچھے‘ مخلص ‘ نہایت باوقار اور باکمال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منہ سے جتنی چاہےتوہین یا اعتراض کرے لیکن وہی توہین یا اعتراض اگر شوہر یا شوہر کے گھر والے کردیں تو معاملہ بہت طول پکڑ جاتا ہے۔ جھگڑے کی اطلاعات اور بنیادیں اتنی بڑھتی ہیں کہ جھگڑا پھربڑھتا ہےاور بات یہاں تک کہ پہنچ جاتی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے۔ بڑوں اور سیانوں کی بات ہے کہ کبھی بھی اپنی بیوی کے سامنے سسرالی خاندان پر خاص طور پر اس کے گھر والوں پر اعتراض نہ کریں۔ میں صرف آپ کو ایک خاندان کی بات بتاتا ہوں۔

 بھولی بسری تلخ یادوں کے تذکرے

خاندان کی دو بیٹیاں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں‘ ایک بڑا بھائی‘ ایک چھوٹا بھائی‘ ادھر چھوٹی اور بڑی بہن‘ بہت خوشی سے رشتے طے ہوئے‘ خاندان بھی ایک تھا‘ بہن نے اپنے بھائی کے گھر اس کی دونوں بیٹیوں سے رشتہ طے کیے‘ چھوٹا بیٹا دن رات بیوی پر اعتراض کرتا تھا اور خاندان کی پرانی بھولی بسری تلخ یادداشتوں کو دہراتا تھا‘ بیوی سہہ جاتی تھی کبھی کبھی دبے الفاظ میں کہتی تھی اب تو گزارا میرا اور آپ کا ہے آپ ان باتوں کو کیوں یاد کرتے ہیں؟ پھر وہ اس بات کا بتنگڑ بناتا تھا کہ وہ میرے سامنے بولتی ہے‘ بدتمیزی کرتی ہے۔بات بڑھ جاتی ‘اس کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں تھا‘ سب بیوی کو جھوٹا کہتے تھے‘ گستاخ کہتے یہ کوئی نہیں سوچتا تھا کہ اصل قصور شوہر کا ہے جس نے بیوی کو پرانی یاددوں میں الجھایا ہوا ہے‘ کبھی اس کے منہ میں اس کے لیے کوئی تعریف نہیں‘ سچے بول‘ سچے جذبات نہیں‘ ہر وقت اعتراض ہی اعتراض ہے‘ اپنی ذات پر اعتراض‘ بیوی نے ہمیشہ برداشت کیا لیکن جب وہی اعتراض اس کے گھر والوں کے لیے آیا بیوی برداشت نہ کرسکی۔ شوہر کبھی اس کے والد کی سابقہ یا موجودہ زندگی پر اعتراض کرتا یا اس کی ماں یا اس کی بہنیں یا اس کے بھائی اگر زندگی میں اس سے کوئی غلطی ہوبھی گئی ہو تو اس کو بہت بار دہراتا اور پل پل دہراتا حالانکہ وہ خود بڑی بڑی غلطیوں میں تھا ‘اس کو اپنی کوئی غلطی نظر نہیں آتی تھی‘ اگر اسے کوئی ایسی غلطی یاد کروائی بھی جاتی تو بیوی سے مزید الجھ پڑتا۔ 

والد نے بہو اور ماں نے بیٹے کا ساتھ دیا

دن رات یہی کشمکش چلتی رہی ‘آخر کب تک عورت سہتی ‘ پھر اس نے اپنے والدین سے یہ بات کہنا شروع کی تو والدین خود میدان میں آگئے‘ پھر ادھر بھی والدین بیٹھے‘ والد نے بہو کا ساتھ دیا کہ میرا بیٹا غلط ہے ‘ یہ غلط کہتا ہے ‘ زیادتی کرتا ہے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن ماں نے بیٹے کا ساتھ دیا۔ معاملہ الجھتا گیا‘ الجھتے الجھتے آخر کار والدین نے بیٹی کو اپنے گھر بٹھا لیا‘ انہوں نے دوسری بیٹی بھی گھر بھیج دی کیونکہ ایک ہی گھر سے دو بیٹیاں آئی تھیں۔ کشمکش بڑھتی گئی‘ اس کشمکش کے نتیجے میں طلاق ہوجانا تھی۔ خاندان کے کسی بڑے نے آگے بڑھ کر اس سارے معاملہ کو سلجھایا ‘بیٹے کو سمجھایا کہ تو زندگی میں اگر کامیابی پانا چاہتا ہے تو بیوی کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے‘ قدرت نےتیرے پردے رکھے ہوئے ہیں تو ان کے پردے رکھ‘ پھر وہ تیرا معاملہ ہے ہی نہیں وہ ان کا ذاتی کردار ہے۔ اگر عیب ہیں تو ان کے ذاتی عیب ہیں تیرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ۔بڑی مشکل سے معاملہ سلجھا‘ بیٹیاں پھر گھر گئیں‘ لیکن قدرت نے بہت اچھا کیا کہ یہی چیز شوہر کو سمجھ آگئی اور اس نے بیوی کے ساتھ اعتراضی مزاج چھوڑ دیا اور یوں گھر ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گیا ورنہ گھر ایسا ٹوٹتا کہ دوبارہ آباد نہ ہوتا۔

اعتراض نے بے شمارگھرانے اجاڑ دیے

 میں نےکئی بار ٹوٹتے گھر صرف اس وجہ کے ساتھ دیکھے ہیں۔ ان گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ یا  توشوہر بیوی کے خاندان کو برا بھلا کہتا ہے یا بیوی شوہر کے خاندان کو برا بھلا کہتی اوراعتراض کرتی ہے اور یہ اعتراض آخر کار دلوں کو توڑ دیتا ہے پھر دل ٹوٹنے کے بعد زندگیاں اور گھر ٹوٹتے ہیں لیکن سب سے بڑا نقصان کہ نسلیں ٹوٹ جاتی ہیں اور نسلوں کے اندر رشتوں کا تقدس ختم ہوجاتاہے۔ آئیے آج وعدہ کریں کہ بیوی کے رشتہ داروں‘ خاندان کو بُرا بھلا نہیں کہیں گے‘بیوی وعدہ کرے کہ شوہر کے رشتہ داروں‘ خاندان کو برا بھلا اعتراض حتیٰ کہ اشارے کنائیے میں بھی ان کی طرف اعتراض نہیں اٹھے گا۔ کامیاب اور خوشحال گھرانےکا راز میں نے آپ کو بتا دیا۔ 

دنیا میں سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا بنا ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اماں حوا سلام اللہ علیہابیوی ہی تھیں۔ میری روحانیت کی زندگی کا سفر 1984ء سے شروع ہوا‘ طالب علم کی حیثیت سے اور وہ طالب علمی چالیس سال 2024ء میں ابھی تک چل رہی ہے‘ آج بھی میں طالب علم ہوں۔ انسان موت تک طالب علم اور موت تک کا یہ سفر کرتا بھی رہتا ہے اور سیکھتا بھی رہتا ہے۔ میاں بیوی میں جھگڑے کی بنیاد!میرے پاس سارا دن الجھتے‘ دکھی اور پریشان مسائل میںمبتلا لوگ آتے ہیں۔ سکھی کون اور کیا کرنے آئے گا؟مسلسل میرے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں بہت بڑی جھگڑے کی بنیادیہ ہے کہ جب شوہر بیوی کے سامنے اس کے خاندان‘ اس کے بھائی‘ اس کے ماموں‘ چچا‘ ماں‘ والد‘ بہنیں یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی توہین وتذلیل یا اعتراض کرتا ہے تو یہ اعتراض بیوی کو کھا جاتا ہے۔ اس کے خاندان میں اچھے ہوں یا بُرے‘ ولی ہوں یا چور‘ اس کے لیے سارے نیک اچھے‘ مخلص ‘ نہایت باوقار اور باکمال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منہ سے جتنی چاہےتوہین یا اعتراض کرے لیکن وہی توہین یا اعتراض اگر شوہر یا شوہر کے گھر والے کردیں تو معاملہ بہت طول پکڑ جاتا ہے۔ جھگڑے کی اطلاعات اور بنیادیں اتنی بڑھتی ہیں کہ جھگڑا پھربڑھتا ہےاور بات یہاں تک کہ پہنچ جاتی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے۔ بڑوں اور سیانوں کی بات ہے کہ کبھی بھی اپنی بیوی کے سامنے سسرالی خاندان پر خاص طور پر اس کے گھر والوں پر اعتراض نہ کریں۔ میں صرف آپ کو ایک خاندان کی بات بتاتا ہوں۔ بھولی بسری تلخ یادوں کے تذکرےخاندان کی دو بیٹیاں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں‘ ایک بڑا بھائی‘ ایک چھوٹا بھائی‘ ادھر چھوٹی اور بڑی بہن‘ بہت خوشی سے رشتے طے ہوئے‘ خاندان بھی ایک تھا‘ بہن نے اپنے بھائی کے گھر اس کی دونوں بیٹیوں سے رشتہ طے کیے‘ چھوٹا بیٹا دن رات بیوی پر اعتراض کرتا تھا اور خاندان کی پرانی بھولی بسری تلخ یادداشتوں کو دہراتا تھا‘ بیوی سہہ جاتی تھی کبھی کبھی دبے الفاظ میں کہتی تھی اب تو گزارا میرا اور آپ کا ہے آپ ان باتوں کو کیوں یاد کرتے ہیں؟ پھر وہ اس بات کا بتنگڑ بناتا تھا کہ وہ میرے سامنے بولتی ہے‘ بدتمیزی کرتی ہے۔بات بڑھ جاتی ‘اس کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں تھا‘ سب بیوی کو جھوٹا کہتے تھے‘ گستاخ کہتے یہ کوئی نہیں سوچتا تھا کہ اصل قصور شوہر کا ہے جس نے بیوی کو پرانی یاددوں میں الجھایا ہوا ہے‘ کبھی اس کے منہ میں اس کے لیے کوئی تعریف نہیں‘ سچے بول‘ سچے جذبات نہیں‘ ہر وقت اعتراض ہی اعتراض ہے‘ اپنی ذات پر اعتراض‘ بیوی نے ہمیشہ برداشت کیا لیکن جب وہی اعتراض اس کے گھر والوں کے لیے آیا بیوی برداشت نہ کرسکی۔ شوہر کبھی اس کے والد کی سابقہ یا موجودہ زندگی پر اعتراض کرتا یا اس کی ماں یا اس کی بہنیں یا اس کے بھائی اگر زندگی میں اس سے کوئی غلطی ہوبھی گئی ہو تو اس کو بہت بار دہراتا اور پل پل دہراتا حالانکہ وہ خود بڑی بڑی غلطیوں میں تھا ‘اس کو اپنی کوئی غلطی نظر نہیں آتی تھی‘ اگر اسے کوئی ایسی غلطی یاد کروائی بھی جاتی تو بیوی سے مزید الجھ پڑتا۔ والد نے بہو اور ماں نے بیٹے کا ساتھ دیادن رات یہی کشمکش چلتی رہی ‘آخر کب تک عورت سہتی ‘ پھر اس نے اپنے والدین سے یہ بات کہنا شروع کی تو والدین خود میدان میں آگئے‘ پھر ادھر بھی والدین بیٹھے‘ والد نے بہو کا ساتھ دیا کہ میرا بیٹا غلط ہے ‘ یہ غلط کہتا ہے ‘ زیادتی کرتا ہے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن ماں نے بیٹے کا ساتھ دیا۔ معاملہ الجھتا گیا‘ الجھتے الجھتے آخر کار والدین نے بیٹی کو اپنے گھر بٹھا لیا‘ انہوں نے دوسری بیٹی بھی گھر بھیج دی کیونکہ ایک ہی گھر سے دو بیٹیاں آئی تھیں۔ کشمکش بڑھتی گئی‘ اس کشمکش کے نتیجے میں طلاق ہوجانا تھی۔ خاندان کے کسی بڑے نے آگے بڑھ کر اس سارے معاملہ کو سلجھایا ‘بیٹے کو سمجھایا کہ تو زندگی میں اگر کامیابی پانا چاہتا ہے تو بیوی کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے‘ قدرت نےتیرے پردے رکھے ہوئے ہیں تو ان کے پردے رکھ‘ پھر وہ تیرا معاملہ ہے ہی نہیں وہ ان کا ذاتی کردار ہے۔ اگر عیب ہیں تو ان کے ذاتی عیب ہیں تیرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ۔بڑی مشکل سے معاملہ سلجھا‘ بیٹیاں پھر گھر گئیں‘ لیکن قدرت نے بہت اچھا کیا کہ یہی چیز شوہر کو سمجھ آگئی اور اس نے بیوی کے ساتھ اعتراضی مزاج چھوڑ دیا اور یوں گھر ٹوٹتے ٹوٹتے بچ گیا ورنہ گھر ایسا ٹوٹتا کہ دوبارہ آباد نہ ہوتا۔اعتراض نے بے شمارگھرانے اجاڑ دیے میں نےکئی بار ٹوٹتے گھر صرف اس وجہ کے ساتھ دیکھے ہیں۔ ان گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ یا  توشوہر بیوی کے خاندان کو برا بھلا کہتا ہے یا بیوی شوہر کے خاندان کو برا بھلا کہتی اوراعتراض کرتی ہے اور یہ اعتراض آخر کار دلوں کو توڑ دیتا ہے پھر دل ٹوٹنے کے بعد زندگیاں اور گھر ٹوٹتے ہیں لیکن سب سے بڑا نقصان کہ نسلیں ٹوٹ جاتی ہیں اور نسلوں کے اندر رشتوں کا تقدس ختم ہوجاتاہے۔ آئیے آج وعدہ کریں کہ بیوی کے رشتہ داروں‘ خاندان کو بُرا بھلا نہیں کہیں گے‘بیوی وعدہ کرے کہ شوہر کے رشتہ داروں‘ خاندان کو برا بھلا اعتراض حتیٰ کہ اشارے کنائیے میں بھی ان کی طرف اعتراض نہیں اٹھے گا۔ کامیاب اور خوشحال گھرانےکا راز میں نے آپ کو بتا دیا۔ 

Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 729 reviews.